جب تم کہو گے۔ اللہ کھے گا میں نے تمہں رزق دینے کا فیصلہ کر لیا
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
ہمارے بہت سے بہن بھائی کشادگی رزق پر ان اصولِ دین اور اوامر سے پہلو تہی کر جاتے ہیں جن پر رزق کی کشادگی منحصر ہوتی ہے نتیجتًا تنگی معاش سے دو چار ہو جاتے ہیں اور اس حد تک پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں کہ مقروض ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ خاندان کی کفالت کی مجبوریاں انہیں ہر شرکیہ اور کفریہ وظائف کو اختیار کرنے پر آمادہ کر دیتی ہیں ، اور ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثریت دینی کم علمی کے باعث ان شرکیہ اور کفریہ اعمال و وظائف کو اختیار کرتے ہیں ۔ مسلمان کو یہ جاننا چاہیے کہ رزق اللہ تعالٰی کی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے، جس کی تقسیم گھٹنے اور بڑھنے کا اختیار اللہ تعالٰی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
【 الذاریات:۵٨ 】
اللہ تعالٰی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘
وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
【 النحل:٧١ 】
’’دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ"
【 الزخرف : ٣٢ 】
رزق صرف کھانے پینے اور راشن کی بھرمار کا نام نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالٰی کی بخشی ہوئی تمام نعمتیں رزق میں شامل ہیں ، جیسے صحت و عافیت ، بیوی بچے ، حاصل کردہ علم اور ہمارے اعمال ، تسکینِ قلبی یا اضطرابِ قلبی وغیرہ ۔
قرآ ن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رزقِ حلال کی کشادگی اور فراخی کے لیے چند امور ایسے ذکر کئے ہیں جو حیاتِ انسانی کے لیے شاندار تعمیر ی دروس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
آئیے ان امور سے شناسائی حاصل کریں اور انہیں اختیار کر کے اپنے رزق میں حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین کشادگی اور فراخی کا مشاہدہ کریں ↡↡↡
ر̳ز̳ق̳ ص̳ر̳ف̳ ا̳ل̳ل̳ہ̳ ت̳ع̳ا̳ل̳یٰ̳̳ ک̳و̳ ر̳ا̳ز̳ق̳ م̳ا̳ن̳ ک̳ر̳ ا̳ل̳ل̳ہ̳ ت̳ع̳ا̳ل̳یٰ̳̳ ہ̳ی̳ س̳ے̳ م̳ا̳ن̳گ̳و̳
سب سے پہلی چیز یہ کہ بہترین رزق دینے والے سے ہی رزق مانگو
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
( العنكبوت :17)۔
تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کررہے ہو اور جھوٹی باتیں دل میں گڑھ لیتے ہو۔سنو !جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کررہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
✵ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"
(المائدہ:114)
✵ وَإِذَا قُلْتَ: اللهُمَّ ارْزُقْنِي قَالَ اللهُ: قَدْ فَعَلْتُ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تم کہو گے:
اللهُمَّ ارْزُقْنِي
تو اللہ کہے گا:میں نے رزق دینے کا فیصلہ کردیا۔
(شعب الایمان:610، السلسلۃ الصحیحۃ:3336)
✵ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا، آپ ﷺ نے کھانا لانے کے لیے (ایک آدمی کو) اپنی ازواج کے پاس بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی کھانا نہ ملا۔ تو آپ ﷺ نے دعا کی:
اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ،فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، بےشک تیرے سوا اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے پاس بھنی ہوئی بکری کا تحفہ لایا گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے اور ہم رحمت کا انتظار کررہے ہیں۔
ت̳و̳ب̳ہ̳ ا̳و̳ر̳ ا̳س̳ت̳غ̳ف̳ا̳ر̳
عزیز دینی سسٹرز برادرز ! ہماری زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جو گناہوں سے پاک ہو ، ہم سرتاپیر گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے خالق و رازق کے مجرم ہیں ۔ ان گناہوں کا انبار ہمارے رزق کو پنپنے نہیں دیتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں استغفار کا راستہ بتا کر ہم پر احسانِ عظیم کیا ہے ۔ متعدد آیات کریمہ اور احادیث شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ استغفار و توبہ رزق کے حصول کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔
گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔
✵ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی' ایک نے قحط سالی کی' دوسرے نے تنگ دستی کی' تیسرے نے اولاد نہ ہونے کی اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالٰی سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔ امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن صبیح سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے رو برو قحط سالی کی شکایت کی' تو انہوں نے اس سے فرمایا: اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی' تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔‘‘
تیسرے شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: ’’اللہ تعالٰٰی سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرما دیں۔‘‘ آپ نے اس کو جواب میں تلقین کی: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو۔‘‘
چوتھے شخص نے ان کے سامنے اپنے باغ کی خشک سالی کا شکوہ کیا تو اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کی التجا کرو۔‘‘
(ابن صبیح کہتے ہیں) ہم نے اس سے کہا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ربیع بن صبیح نے ان سے کہا: آپ کے پاس چار اشخاص الگ الگ شکایت لے کر آئے اور آپ نے ان سب کو ایک ہی بات کا حکم دیا کہ ’’اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرو۔‘‘
(تفسیر الخازن 154/7' روح المعانی 73/29)
امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: میں نے انہیں اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی (میں نے تو انہیں اس بات کا حکم دیا ہے جو بات ربِ رحیم و کریم نے سورہ نوح میں بیان فرمائی ہے) سورہ نوح میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
’’ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًۭا ‘‘
’’اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو' بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائے گا اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘
✵امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ استغفار و توبہ کا ثمرہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں وسعتِ رزق اور خوش حالی سے نوازیں گے اور تمہیں اس طرح عذاب سے نیست و نابود نہ کریں گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو کیا۔‘‘
【تفسیر القرطبی 403/9' تفسیر الطبری 230/15' تفسیر الکاشف 258/2' تفسیر البغوی 373/4' فتح القدیر 695/2' تفسیر القاسمی 63/9】
✵ ہمارے گناہ ہمارے رزق کی تنگی کا بڑا سبب ہے ۔ ہمارے گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری روزی اور رزق تنگ ہوجاتا ہے ۔حصولِ رزق اور فراخئ معاش کے لیے ترکِ گناہ سےبہتر کوئی چیز نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ٢ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ...٣﴾... سورة الطلاق
'' جو شخص اللّٰہ سے ڈرتا ہے اور گناہوں سے باز آ جاتا ہے،اللّٰہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔''
ف̳ر̳ا̳خ̳ی̳ ر̳ز̳ق̳ ک̳ے̳ ل̳ی̳ے̳ ت̳ق̳و̳ی̳ ا̳خ̳ت̳ی̳ا̳ر̳ ک̳ر̳ی̳ں̳
تقوی اختیار کرنا مومن کی نشانی ہے ۔ انسان مسلمان بن جاتا ہے لیکن تقوی اسے مومن بناتا ہے ۔ متقی شخص سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ہر غم و الم سے نجات عطا فرماتا ہے ۔
✵امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے تقوے کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
’’اللہ تعالٰی کے اوامرونواہی کی پابندی کرنا۔ اور تقویٰ کے معنے یہ ہیں کہ انسان ایسے کاموں سے بچا رہے جو اللہ تعالٰی کی ناراضی اور عذاب کا سبب ہوں۔‘‘
【الفاظ التنبیہ ص ٣٢٢】
✵ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا‘‘
【سورہ الطلاق آیت ٢/٣】
✵حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کو دنیا و آخرت کے ہر غم سے نجات دیں گے۔‘‘
【 تفسیر القرطبی ١۵٩/١ 】
✵ حضرت ربیع بن خثیم آیتِ کریمہ کے اس حصے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالٰی اس کیلیے ہر اس بات سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیں گے جو لوگوں کیلیے تنگی اور مشکل کا سبب بنتی ہے۔‘‘
【 تفسیر البغوی ٣۵٧/۴ وتفسیر الخازن ١٠٨/٧ 】
ا̳ل̳ل̳ہ̳ پ̳ر̳ ت̳و̳ک̳ل̳ ف̳ر̳ا̳خ̳ی̳ ر̳ز̳ق̳ ک̳ا̳ ذ̳ر̳ی̳ع̳ہ̳ 【̳تَ̳̳وَ̳̳كَّ̳̳̳ل̳ عَ̳̳لَ̳̳ى̳ ا̳ل̳لَّ̳̳̳هِ̳̳ 】̳
توکل علی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا کہ میری چوٹی اسکے ہاتھ میں ہے ، نیز یہ کہ ہر خیر اور بھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے کلیدِ رزق ہے ۔ یعنی دلوں میں یہ بات راسخ ہو کہ میرے رزق کی تنگی ، مجھے پہنچنے والا غم ، مجھے لاحق بیماریاں اور ہر وہ چیز جو مجھے زاد رنج کر دے من جانب اللہ ہے اور ان سے نجات میرے مالک کے ہاتھ میں ہے
✵الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے ۔
✵وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾
وہی ہے مجھے جو کھلاتا پلاتا ہے ۔
✵وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾
اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے ۔
✵وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ ﴿ۙ۸۱﴾
اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کردے گا ۔
✵وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا ۔
✵اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا ﴿سورۂ الطلاق / ۳﴾
اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ۔ اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا اللہ تعالٰی نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔
اور جو بندہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ اسکے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
✵عَنْ عُمَرَ بن الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُوا خِمَاصاً وَتَرُوْحُ بِطَاناً»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔
(سنن ترمذي:2344 )' سنن ابن ماجہ 419/2' کتاب الزہد194/4' الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 509/2)۔
امام ابو قاسم قشیری فرماتے ہیں: ’’توکل کی جگہ دل ہے اور جب بندے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ رزق اللہ تعالٰی کی جانب سے ہے' اگر تنگ دستی آئی تو تقدیر الٰہی سے' آسانی ہوئی تو ان کی عنایت و نوازش سے' تو پھر ظاہری حرکت توکل کے منافی نہیں۔‘‘
(ماخوذ ازمرقاۃ المفاتیح 157/5)
اور توکل یہ ہے کہ حصولِ رزق کی وشش کی جائے اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر کیا جائے ۔ ایسا نہیں کہ ہم جدوکہد کرنا چھوڑ دیں اور اللہ پر توکل رکھیں کہ وہ ہمیں بغیر جنبش کے رزق دے گا ۔
’’امام ابن حبان اور امام حاکم نے عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’میں اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں اور توکل کرتا ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے گھٹنے کو باندھو اور توکل کرو۔‘‘
(الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان 510/2)
ایک دوسری روایت میں ہے جس کو امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے عرج کی:
’’اے اللہ کے رسول! میں اپنی سواری کو پابہ زنجیر کروں (باندھوں) اور اللہ اللہ تعالٰی پر بھروسہ کروں یا سواری کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سواری کو پابہ زنجیر کرو اور توکل کرو۔‘‘
(مسند الشھاب 368/1)
فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز
جنبش از دست تو می خواہند نیز
عزیز من! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔
ح̳ص̳و̳لِ̳̳ ر̳ز̳ق̳ ک̳ی̳ د̳ع̳ا̳ئ̳ی̳ں̳
✵اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي، وَبَارِكْ لِي فِي رِزقِْي
اے اللہ! میرے گناہ معاف کردے، میرے گھر میں وسعت پیدا کردے اور میرے رزق میں برکت دے۔
【 صحيح الجامع الصغير للالباني:1266 】
✵اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمُرِي
اے اللہ! جب میں بوڑھا ہوجاؤں اور میری عمر ختم ہونے لگے تو اپنا رزق مجھ پر وسیع کردے۔
【 المعجم الاوسط للطبراني:3611 】
✵اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُكُلُّهُ، اللَّهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ. اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَالنَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالْأَمْنَ يَوْمَ الْحَرْبِ، اللَّهُمَّ عَائِذًا بِكَ مِنْ سُوءِ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ مِنَّا
اے اللہ! تیرےلیے ہی سب قسم کی تعریف ہے، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹنے والا نہیں ہے، جو تو دور کردے اسے کوئی نزدیک کرنے والا نہیں، جسے تو نزدیک کردے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے، جس سے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔اے اللہ! ہم پر اپنی برکات، اپنی رحمت، اپنے فضل اور اپنے رزق کو پھیلا دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے ایسی نعمتیں مانگتا ہوں جو ہمیشہ قائم رہیں نہ (تیری اطاعت میں) حائل ہوں اور نک زائل ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے تنگی کے دن کی نعمت اور جنگ کے دن کے امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! تیری پناہ میں آتا ہوں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔
【الادب المفرد للبخاري:699 / وصححہ الالبانی 】
✵ اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ،فَإِنَّهُ لَا يَمْلِكُهَا إِلَّا أَنْتَ
اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں،
بےشک تیرے سوا اسکا کوئی مالک نہیں ہے۔
【 معجم الكبيرللطبراني:10379/ والسلسلة الصحيحة:1543 】
✵ اللهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي وَارْزُقْنِي
اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ ہر رحم فرما، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
【 صحيح مسلم:٢٦٩٧ / ٧٠٢٦ 】
✵اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ رزق اور قبولیت والے عمل کی دعا کرتا ہوں۔
【 سنن ابن ماجہ : ٩٢۵ 】
✵اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ
اےاللہ! تو مجھے اپنی حلال کردہ چیز کے ذریعے اپنی حرام کردہ چیز سے کافی ہوجا اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ سب سے بےنیاز کردے۔
【 جامع ترمذی : ٣۵٦٣ 】
✵اللهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ بَيْتِي قُوتًا
اے اللہ! میرے گھر والوں کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
【 مسند احمد : ٧١٧٣ / بخاری : ٦۴٦٠ 】
✵اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَارْزُقْنَا خَیْرًا مِنْهُ
اے الله! ہمیں اس میں برکت دے اور اس سے بہتر رزق عطا فرما۔
【 سنن ابن ماجہ : ٣٣٢٢ 】
✵ ماں باپ کا اپنی اولاد کے رزق میں برکت کے لیے دعا
اَللّٰهُمَّ ارْزُقْهُ مَالًا وَوَلَدًا وَبَارِکْ لَهُ
اے الله! اسے مال اور اولاد عطا فرما اور اسے برکت عطا فرما۔
【 صحیح البخاری : ١٩٨٢ 】
✵ کسبِ معاش کی کوشش کرنے والے کے ہاتھ میں برکت کی دعا دینا
عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا:
بَارَكَ اللهُ لَكَ فِیْ صَفْقَةِ یَمِیْنِكَ
”اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے“یا "الله تمہارے دائیں ہاتھ کے معاملات میں برکت دے۔"،
پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ مقام کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چنانچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے۔
【 سنن الترمذی : ١٢۵٨ 】
وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment